Select Menu

ہندوستان

اہم خبریں

clean-5

شعرو شاعری

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Followers

Misc

Technology

دارالعلوم حیدرآباد کے شیخ الحدیث مولانا حسیب الرحمن صاحب کا سانحۂ ارتحال ملتِ اسلامیہ کے عظیم خسارہ!



دارالعلوم حیدرآباد کے شیخ الحدیث مولانا حسیب الرحمن صاحب کا سانحۂ ارتحال ملتِ اسلامیہ کے عظیم خسارہ!
دارالعلوم حیدرآباد میں تعزیتی اجلاس سے مولانا محمد رحیم الدین انصاری و مولانا انصار قاسمی و دیگر علماء کا خطاب ۔ 
حیدرآباد ۔
جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد کے سابق شیخ الحدیث، محدث جلیل حضرت مولانا حسیب الرحمن صاحب قاسمی اپنی طویل علالت کے بعد کل بروز پیر رات ایک بجے اس دار فانی سے دار باقی کی طرف راہی برضا ہوگئے، جیسے ہی یہ خبر جامعہ پہونچی تو جامعہ کی فضاء سوگوار ہوگئی، جامعہ میں حضرت شیخ الحدیث ؒ کے لیے قرآن خوانی کااہتمام کیا گیا اورایک تعزیتی جلسہ مولانا محمد رحیم الدین انصاری کی صدارت میں منعقد ہوا ۔

اس جلسہ کو خطا کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ حضرت شیخ الحدیث ایک کامیاب مدرس، بلند پایہ فقیہ اور عظیم محدث تھے، ان کو فن حدیث میں کامل درجہ کی مہارت حاصل تھی، انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک علم حدیث خدمات انجام دی ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت شیخ الحدیث نے دارالعلوم حیدرآباد میں 33؍ سال تک بخاری شریف کا درس دیا، وہ شیخ ا لاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد رشید تھے، آپ کی ذات علم وعمل، فضل وکمال، صلاح وتقویٰ اوراخلاص وللہیت کی مظہر جمیل تھی۔آپ ذہانت وذکاوت، فہم وفراست کی خداداد صلاحیتوں اور حصول علم ومعرفت کی سچی تڑپ اور جذبۂ صادق کی زندہ مثال تھے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ الحدیث کو بے شمار کمالات وخوبیوں سے نوازا تھا ،وہ جہاں ایک متبحر صاحب نظر عالم، دیدہ ورفقیہ، عظیم محدث ومفسر، صاحب طرز ادیب اوربے مثال معلم ومدرس تھے وہیں عملی دنیا میں زہد وتقویٰ، رجوع وانابت إلی اللہ، تواضع وانکساری، حلم وبردباری بے نفسی وخدا ترسی، رحم دلی وہمدردی جیسی عظیم ملکوتی صفات ان کی ذات میں اس طرح پیوست تھیں جیسے گلوں میں خوشبو اور آفتاب میں روشنی ہوتی ہے۔ 

مولانا انصار صاحب قاسمی شیخ الحدیث جامعہ نے کہا آپ علم وعمل میں ماہِ کامل تھے، دنوں میں تو جمعہ کے دن کو فضیلت حاصل ہے لیکن موت کے لیے پیر کے دن کو فضیلت حاصل ہے،اللہ نے پیر کے دن اپنے محبوب نبیﷺ کو اپنے پاس بلایا تھا اور حضرت شیخ الحدیث کو بھی پیر کے دن اللہ کے حضور پہنچنے کا شرف حاصل ہے، یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔ 

مولانا سید احمد ومیض ندوی نے اپنے خطاب میں کہا طلبہ حضرت شیخ الحدیث سے بہت زیادہ متأثر تھے، ان کے شاگردسارے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں،ان کے فیض یافتہ گان کا ایک وسیع حلقہ ہے، جو ان کے لیے ثواب جاریہ ہوگا۔ مفتی تجمل حسین قاسمی نے کہاوہ بلند پایہ کے عالم دین تھے، بخاری شریف کی تدریس کے لیے اپنے آپ کو فنا کردیا تھا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضورﷺ کا فرمان ہے جب شام پر ہلاکت آجائے تو امت کی خیریت اٹھ جائے گی، تو جب سے ملک شام کے حالات خراب ہوئے ہیں امت میں اختلافات کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور حدیث میں علم کو خیر سے تعبیر کیا گیا ہے اور بڑے بڑے ماہر فن اکابر علماء اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں، صرف ایک ہفتہ کے اندر دکن سے دو عظیم شیخ الحدیث رخصت ہوچکے ہیں، حضرت شیخ الحدیث بڑے محتاط تھے، علم حدیث کے انوارات ان کے چہرہ سے عیاں وبیاں ہوتے تھے، لوگوں کو چاہیے کہ علماء کے جانے کے بعد قدر کرنے کے بجائے ان کی زندگی ہی میں ان کی سچی قدر دانی اور اکتساب فیض کیا جائے۔ 

مولانا عبد العزیز سابق استاذ حدیث جامعہ نے کہا کہ حضرت شیخ الحدیث عزم وحوصلہ کے بلند پہاڑ تھے، جذبۂ فنائیت ان میں کوٹ کوٹ کا بھرا ہوا تھا، بے نفسی اور خلوت نشینی ان کا وصف خاص تھا، وہ ہر حال میں علم وعمل میں یکساں نظر آتے تھے، ان کے قول وفعل میں تضاد نہیں تھا، وہ خورد نواز تھے اورچھوٹوں کی ترقی پر بڑی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ 

مولانا محمد رحیم الدین انصاری نے اجلاس کی صدارت ، مولانا مفتی محمد جمال الدین قاسمی صدر مدرس جامعہ نے اجلاس کی نگرانی کی،اس موقعہ پر مولانا محمد علاء الدین انصاری، مفتی محمد تراب الحق مظاہری، مولانا محمد زین العابدین انصاری ، مولانا عبد الحمید حسامی، مولانا صادق حسامی، مولانامحمد انوار الحق حسامی، مولانا آفتاب حسامی، ڈاکٹر محمدنظام الدین ،جمیع اساتذۂ کرام وطلبۂ عزیزجامعہ موجود تھے، مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمی نے جلسہ کی کاروائی چلائی اور مولانا انصار قاسمی شیخ الحدیث جامعہ نے دعافرمائی کہ اللہ تعالیٰ حضرت کی خدمتِ علم حدیث کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے، اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔

ہندوستان اردو اخبار


روشن چراغ گل ہوگیا

روشن چراغ گل ہوگیا           -----------------------------             از ↔ مفتی محمد رضوان عالم قاسمی استاذ مدرسہ رحمانیہ سوپول بیرول ضلع دربھنگہ      〰〰〰〰〰〰〰〰مجھے آج ملک و ملت کی عظیم ترین دینی علمی سیاسی سماجی جماعتی صحافتی ادبی اور مذہبی و روحانی شخصیت نمونہ اسلاف حضرت الحاج مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ کے بارے میں چند سطور رقم کرتے ہوئے بے حد افسوس ہو رہا ہے کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے بلا شبہ ان کے انتقال سے ایک روشن چراغ گل ہوگیا میرے دست و قلم بار بار ٹھہر جاتے ہیں کہ آخر مجھ جیسے چھوٹے کااس روشن سورج کے کسی گوشے پر کچھ رقم کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے کیونکہ حضرت مولانا کی ذات گرامی اپنے آپ میں ایک انجمن تھی ان کی زندگی خود ایک تحریک تھی ایک چھوٹے سے گاؤں اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق ملک کے سب سے پسماندہ و کوردہ خطہ ضلع کشن گنج (سیمانچل ) میں آنکھیں کھولنے والے اس لعل نے کس قدر جدوجہد بھری داستان حیات ریکارڈ کراتے ہوئے مکتب و مدارس کی زندگی کو عبور کرکے اپنے ارادے و عزم کے مطابق پارلیمانی سفر تک کو سر کیا ابھی کل کی بات ہے مسلمانان ہند کی قدیم اور عظیم خدمت گزار باوقار جماعت، جمعیت علماء ہند کا گزشتہ 22 / نومبر 2018ء بروز جمعرات تاریخی شہر ارریہ میں تاریخ ساز صوبائی اجلاس زیر صدارت جانشین شیخ الاسلام آبروئے ملت اسلامیہ ہند حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی دامت برکاتہم تھا منتظمین کی دعوت پر احقر بھی شریک اجلاس تھا لاکھوں سامعین کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور اسٹیج پر سیمانچل سمیت ملک بھر کے مشہور و معروف موقر علمائے کرام مشائخ عظام اور سیمانچل کے چاروں اضلاع کے تقریبا اکثر سابقہ و موجودہ ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی جلوہ افروز ، اس درمیان بحیثیت مہمان خصوصی بعد نماز عشاء حضرت مولانا تشریف لائے تھوڑی توقف کے بعد ہی اجلاس کو اپنے بالکل سادہ انداز میں ملک کی آزادی اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے خطاب کیا اور قومی یکجہتی پر زور دیاجمعیت علماء کی خدمات کو سراہا آخری دفعہ یہی ملاقات رہی آتے اور جاتے اسٹیج پر ہی سلام و مصافحہ رہا جاتے وقت میرے مخلص رفیق اور آج کے سیمینار و تعزیتی اجلاس کے محرک حضرت مولانا مفتی محمد انعام الباری قاسمی صاحب نے پوچھا حضرت سیمانچل میں کب تک قیام رہے گا میں نے اپنے کانوں سے سنا فرمایا انشاءاللہ ہفتہ دس دن ------- اور وہی ہوا ٹھیک دسویں دن کی آخری رات میں تین دینی جلسوں کو خطاب کیا صبح کو اخبارات میں ان کےبیانات اور مضامین لوگ پڑھ رہے ہیں لیکن اخبارات ہاتھوں میں آنے سے قبل کشن گنج سرکٹ ہاوس میں مقیم رات کے تقریبا 3/ بجے حضرت والا بیدار ہوئے تہجد کی نماز کیلئے وضو کیا بعد وضو سینے میں درد محسوس ہوا اپنے باڈی گارڈ کے کمرے میں گئے جگایا اور ان لوگوں سے کہا کہ لگتا اب میں دنیا میں نہیں رہوں گا آپ لوگوں کو مجھ سے کوئی تکلیف پہونچی ہو تو معاف کیجئے اور مجھے ڈاکٹر صاحب کے یہاں لے  چلئیے فورا گاڑی میں بیٹھایا گیا اور تھوڑی ہی دیر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے انا للہ و انا الیہ راجعون حضرت مولانا محمد اسرارالحق صاحب کی ہمیشہ ہی یہ کوششیں رہی کہ تمام مسلمان بلا اختلاف مسلک و مشرب باہم اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے غیر مسلموں سے بھی شیروشکر ہو کر زندگی گزاریں اختلافات سے پرہیز کریں اور اتحاد کا راستہ اپنائیں جسکا عکس حضرت مولانا کی تحریروں و تقریروں میں صاف جھلکتا ہے اور اللہ کا حکم بھی تمام مسلمانوں کیلئے یہی ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو آپس میں اختلاف و انتشار کے ساتھ نہیں ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی حضرت مولانا کی ہمیشہ یہ فکر رہی کہ مسلمان اور یہ پسماندہ علاقہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے چنانچہ انہوں اس راہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے کیلئے آل انڈیا ملی و تعلیمی فاونڈیشن قائم کیا اس کے ذریعے سے ملک کے تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ریاست بنگال و جھارکھنڈ اور سیمانچل سمیت دہلی کے جھگی جھونپڑی والے حلقوں کو اپنی خدمات کا ہدف بنایا اور وہاں دینی عصری تعلیم کے بنیادی ادارے قائم کئے کشن گنج میں ملی گرلس اسکول اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کا قیام ایک انہونی سے کم نہیں     حضرت مولانا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عالم ربانی حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ سہارنپور اور حضرت مولانا محمد قمرالزماں صاحب رحمتہ اللہ علیہ الہ آباد سے اجازت و خلافت یافتہ ایک شیخ کامل، امام طریقت، جید عالم دین، کہنہ مشق سیاست داں ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے کورٹ ممبر، عرصہ دراز تک جمعیت علماء ہند کے ناظم عمومی،    دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے

وزن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ میں معروف عالم دین سیاست داں اور ملی رہنما محسن ملت جناب اسرارالحق قاسمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ۵۰ سالہ دینی خدمات کے اعتراف میں سیمینار

وزن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ معروف عالم دین ، مایہ ناز صحافی و خطیب ، بلند مرتبت علمی و مذہبی ِشخصیت ، وسیع فکرو نظر کے حامل ، سیاست داں اور ملی رہنما محسن ملت جناب اسرارالحق قاسمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ۵۰ سالہ دینی ، علمی ، ملی ، سماجی ،سیاسی ،صحافی اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں سیمیناربتاریخ ۳۰ دسمبر ساڑھے دس بجے کانفرنس ہال بہار ارردو اکادمی پٹنہ میں منعقدکیا جارہا ہے ،اس تاریخی پروگرام میں آپ سب سے شرکت کی پرخلوص استدعا ہے ۔
منعقد کردہ ۔ جناب شہنواز بدر قاسمی اور جناب نور السلام ندوی 

بالی وڈ کلاکار ’’ نصیر الدین شاہ ‘‘ کے بیان پر کافی بوال مچ گیا ہے

بالی وڈ کلاکار ’’ نصیر الدین شاہ ‘‘ کے ایک بیان پر کافی بوال مچ گیا ہے نصیرالدین شاہ نے یوٹیوب چینل پر دیئے گئے ایک انٹریو میں کہا ہے کہ ہندوستان میں انسان کی زندگی سے زیادہ جانور کی زندگی پیاری ہے غور طلب ہے کہ یہ بات انہوں نے بلند شہر کی گھٹنہ کو سامنے رکھ کر کہا ہے ، انہوں نہ یہ بھی کہا ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں  کل ہمارے بچے کو بھیڑ روک کر پوچھے کہ تم ہندو ہو یا مسلمان ، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ہمارا ملک ہے یہاں ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

احمد آباد میں چارٹرڈ اکاونٹینٹ سمیلن میں بے جے پی نیتا سوبرمنیم سوامی نہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکار جے ڈی پی کا آکڑہ بڑھواتی ہے

احمد آباد میں چارٹرڈ اکاونٹینٹ سمیلن میں بے جے پی نیتا سوبرمنیم سوامی نہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکار جے ڈی پی کا آکڑہ بڑھواتی ہے اس سے بے جے پی منشا ظاہر ہوتا ہے، جب بے جے پی کا ہی نیتا اپنی پارٹی پر یہ الزام لگا رہا ہے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہندوستان کہاں جارہا ہے 

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ناظم ندوہ العلماء "تذکرہ ابو الحسن علی ندوی " مولفہ پروفیسر انیس چشتی صاحب کا اجراء کرتے ہوئے۔ ہندوستان اردو ٹائمز




رواق ابوالحسن علی ندوی دارالعلوم ندوہ العلماء میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ناظم ندوہ العلماء  "تذکرہ ابو الحسن علی ندوی " مولفہ پروفیسر انیس چشتی صاحب کا اجراء کرتے ہوئے ، ساتھ میں حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی معتمد تعلیم ندوۃ العلماء . جناب پروفیسر انیس چشتی . مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری بھی موجود ہیں